میں نے کل خواب میں آئندہ کو چلتے دیکھا
رزق اور عشق کو اک گھر سے نکلتے دیکھا
روشنی ڈھونڈ کے لانا کوئی مشکل تو نہ تھا
لیکن اس دوڑ میں ہر شخص کو جلتے دیکھا
ایک خوش فہم کو روتے ہوئے دیکھا میں نے
ایک بے رحم کو اندر سے پگھلتے دیکھا
روز پلکوں پہ گئی رات کو روشن رکھا
روز آنکھوں میں گئے دن کو مچلتے دیکھا
صبح کو تنگ کیا خود پہ ضرورت کا حصار
شام کو پھر اسی مشکل سے نکلتے دیکھا
ایک ہی سمت میں کب تک کوئی چل سکتا ہے
ہاں کسی نے مجھے رستہ نہ بدلتے دیکھا
عزمؔ اس شہر میں اب ایسی کوئی آنکھ نہیں
گرنے والے کو یہاں جس نے سنبھلتے دیکھا

غزل
میں نے کل خواب میں آئندہ کو چلتے دیکھا
عزم بہزاد