EN हिंदी
میں نے کل خواب میں آئندہ کو چلتے دیکھا | شیح شیری
maine kal KHwab mein aainda ko chalte dekha

غزل

میں نے کل خواب میں آئندہ کو چلتے دیکھا

عزم بہزاد

;

میں نے کل خواب میں آئندہ کو چلتے دیکھا
رزق اور عشق کو اک گھر سے نکلتے دیکھا

روشنی ڈھونڈ کے لانا کوئی مشکل تو نہ تھا
لیکن اس دوڑ میں ہر شخص کو جلتے دیکھا

ایک خوش فہم کو روتے ہوئے دیکھا میں نے
ایک بے رحم کو اندر سے پگھلتے دیکھا

روز پلکوں پہ گئی رات کو روشن رکھا
روز آنکھوں میں گئے دن کو مچلتے دیکھا

صبح کو تنگ کیا خود پہ ضرورت کا حصار
شام کو پھر اسی مشکل سے نکلتے دیکھا

ایک ہی سمت میں کب تک کوئی چل سکتا ہے
ہاں کسی نے مجھے رستہ نہ بدلتے دیکھا

عزمؔ اس شہر میں اب ایسی کوئی آنکھ نہیں
گرنے والے کو یہاں جس نے سنبھلتے دیکھا