میں نے جب تب جدھر جدھر دیکھا
اپنی صورت کا ہی بشر دیکھا
ریت میں دفن تھے مکان جہاں
ان پہ مٹی کا بھی اثر دیکھا
جب سکونت تھی میری برزخ میں
نیک روحوں کا اک نگر دیکھا
جو برہنہ مدام رہتا تھا
میں نے ملبوس وہ شجر دیکھا
اپنے مسلک پہ گامزن تھا جب
روشنی کو بھی ہم سفر دیکھا
مجھ پہ تھا ہر وجود کا سایہ
دھوپ کو جب برہنہ سر دیکھا
مجھ کو احساس برتری کا ہوا
رفعتوں کو جب اک نظر دیکھا
جس کی توہین کی ستاروں نے
میں نے ایسا بھی اک قمر دیکھا
اس کے رخ پر مرا ہی پرتو تھا
میں نے جس کو بھی اک نظر دیکھا
اس کی روداد بوم سے پوچھو
جو بھی کچھ اس نے رات بھر دیکھا
میری چڑیوں سے تھی رفاقت کیا
صاف ستھرا جو اپنا گھر دیکھا
دیکھنا تھا کہ دیو سا بھی ہوں
چڑھ کے کندھوں پہ اپنا سر دیکھا
آتما سے جو رابطہ تھا مرا
ذات اپنی میں ایشور دیکھا
بحر و بر سے وہ مختلف تھا فگارؔ
میں نے منظر جو اوج پر دیکھا

غزل
میں نے جب تب جدھر جدھر دیکھا
جگدیش راج فگار