میں نے جب سے چاہت کے جگنوؤں کو پالا ہے
زندگی کی وادی میں ہر طرف اجالا ہے
ہر طرف ہیں خوشبوئیں ہر طرف اجالا ہے
آج میرے آنگن میں کوئی آنے والا ہے
سرپھری ہواؤں سے خوف کھا نہیں سکتے
جن چراغ زادوں کو آندھیوں نے پالا ہے
اونچے رتبے والوں کو دیکھیے تو پامالی
مقبروں میں شاہوں کے مکڑیوں کا جالا ہے
آرتی اترتی ہے اہل زر کی پھولوں سے
مفلسی کے چہرے پر آنسوؤں کی مالا ہے
ناز کیا کرے دلدارؔ آتی جاتی سانسوں پر
زندگی جب انساں کی موت کا نوالہ ہے
غزل
میں نے جب سے چاہت کے جگنوؤں کو پالا ہے
دلدار ہاشمی