EN हिंदी
میں نے جب سے چاہت کے جگنوؤں کو پالا ہے | شیح شیری
maine jab se chahat ke jugnuon ko pala hai

غزل

میں نے جب سے چاہت کے جگنوؤں کو پالا ہے

دلدار ہاشمی

;

میں نے جب سے چاہت کے جگنوؤں کو پالا ہے
زندگی کی وادی میں ہر طرف اجالا ہے

ہر طرف ہیں خوشبوئیں ہر طرف اجالا ہے
آج میرے آنگن میں کوئی آنے والا ہے

سرپھری ہواؤں سے خوف کھا نہیں سکتے
جن چراغ زادوں کو آندھیوں نے پالا ہے

اونچے رتبے والوں کو دیکھیے تو پامالی
مقبروں میں شاہوں کے مکڑیوں کا جالا ہے

آرتی اترتی ہے اہل زر کی پھولوں سے
مفلسی کے چہرے پر آنسوؤں کی مالا ہے

ناز کیا کرے دلدارؔ آتی جاتی سانسوں پر
زندگی جب انساں کی موت کا نوالہ ہے