EN हिंदी
میں نے جب جب بھی ترا نام لکھا کاغذ پر | شیح شیری
maine jab jab bhi tera nam likha kaghaz par

غزل

میں نے جب جب بھی ترا نام لکھا کاغذ پر

تنویر گوہر

;

میں نے جب جب بھی ترا نام لکھا کاغذ پر
یوں لگا جیسے کوئی پھول کھلا کاغذ پر

ایک مدت سے ملاقات کو بے چین ہے دل
بھیج دے لکھ کے مجھے اپنا پتا کاغذ پر

خط ترا جب بھی کوئی میں نے پرانا کھولا
تو ابھر آیا حسیں نقش ترا کاغذ پر

لکھنے بیٹھا ہوں ترے نام کوئی خط جب بھی
آنکھ سے اشک گرا ثبت ہوا کاغذ پر

چارہ گر آ کہ سوا درد جگر ہوتا ہے
بھیج دے لکھ کے مجھے ورنہ دوا کاغذ پر

تجھ کو اظہار محبت کی قسم اتنا بتا
بے وفا کیوں کیا اظہار وفا کاغذ پر

کیا ہے تقدیر میں اللہ خبر رکھتا ہے
کون پڑھتا ہے مقدر کا لکھا کاغذ پر

داد و تحسین کی کانوں میں صدائیں گونجیں
جب بھی گوہرؔ نے کوئی شعر کہا کاغذ پر