میں نے اک خواب کیا سنا ڈالا
بھائیوں نے کنویں میں جا ڈالا
یار تم بھی عجب مداری ہو
سانپ رسی کو ہے بنا ڈالا
ایسی چائے کبھی نہ پی میں نے
سچ بتا تو نے اس میں کیا ڈالا
آنکھ بھر کے جب اس نے دیکھا تو
زرد موسم میں دل کھلا ڈالا
بس وہ نیکی ثواب بنتی ہے
دوش دریا جسے بہا ڈالا
میں کہیں لاپتہ نہ ہوں جاؤں
تو نے کس کھوج میں لگا ڈالا
کوئی سمجھے گا یا نہیں ارشدؔ
جو سنانا تھا وہ سنا ڈالا
غزل
میں نے اک خواب کیا سنا ڈالا
ارشد محمود ارشد