EN हिंदी
میں نے اک خواب کیا سنا ڈالا | شیح شیری
maine ek KHwab kya suna Dala

غزل

میں نے اک خواب کیا سنا ڈالا

ارشد محمود ارشد

;

میں نے اک خواب کیا سنا ڈالا
بھائیوں نے کنویں میں جا ڈالا

یار تم بھی عجب مداری ہو
سانپ رسی کو ہے بنا ڈالا

ایسی چائے کبھی نہ پی میں نے
سچ بتا تو نے اس میں کیا ڈالا

آنکھ بھر کے جب اس نے دیکھا تو
زرد موسم میں دل کھلا ڈالا

بس وہ نیکی ثواب بنتی ہے
دوش دریا جسے بہا ڈالا

میں کہیں لاپتہ نہ ہوں جاؤں
تو نے کس کھوج میں لگا ڈالا

کوئی سمجھے گا یا نہیں ارشدؔ
جو سنانا تھا وہ سنا ڈالا