میں نے دل بے تاب پہ جو جبر کیا ہے
خوں ہو کے میری آنکھوں سے اب چھوٹ بہا ہے
جس کو کسی آذر نے ہے پتھر سے تراشا
اب شومیٔ تقدیر سے وہ میرا خدا ہے
اس کے ستم و جور کا احساس کسے ہو
اس شوخ کی صورت ہی بڑی ہوش ربا ہے
مجھ بیکس و آوارہ کی پھر آ گئی شامت
سنتا ہوں کہ بستی میں کہیں قتل ہوا ہے
تم ان کو سزا کیوں نہیں دیتے کہ جنہوں نے
مجرم کا ضمیر اور سکوں لوٹ لیا ہے
اب دعویٔ انصاف کی اوقات کھلے گی
خود شیخ مرے شہر کا مختار بنا ہے
غزل
میں نے دل بے تاب پہ جو جبر کیا ہے
افضل پرویز