EN हिंदी
میں نے دل بے تاب پہ جو جبر کیا ہے | شیح شیری
maine dil-e-be-tab pe jo jabr kiya hai

غزل

میں نے دل بے تاب پہ جو جبر کیا ہے

افضل پرویز

;

میں نے دل بے تاب پہ جو جبر کیا ہے
خوں ہو کے میری آنکھوں سے اب چھوٹ بہا ہے

جس کو کسی آذر نے ہے پتھر سے تراشا
اب شومیٔ تقدیر سے وہ میرا خدا ہے

اس کے ستم و جور کا احساس کسے ہو
اس شوخ کی صورت ہی بڑی ہوش ربا ہے

مجھ بیکس و آوارہ کی پھر آ گئی شامت
سنتا ہوں کہ بستی میں کہیں قتل ہوا ہے

تم ان کو سزا کیوں نہیں دیتے کہ جنہوں نے
مجرم کا ضمیر اور سکوں لوٹ لیا ہے

اب دعویٔ انصاف کی اوقات کھلے گی
خود شیخ مرے شہر کا مختار بنا ہے