EN हिंदी
میں نے بھی تہمت تکفیر اٹھائی ہوئی ہے | شیح شیری
maine bhi tohmat-e-takfir uThai hui hai

غزل

میں نے بھی تہمت تکفیر اٹھائی ہوئی ہے

قمر رضا شہزاد

;

میں نے بھی تہمت تکفیر اٹھائی ہوئی ہے
ایک نیکی مرے حصے میں بھی آئی ہوئی ہے

مرے کاندھوں پہ دھرا ہے کوئی ہارا ہوا عشق
یہی گٹھڑی ہے جو مدت سے اٹھائی ہوئی ہے

تم تو آئے ہو ابھی دشت محبت کی طرف
میں نے یہ خاک بہت پہلے اڑائی ہوئی ہے

ٹوٹ جاؤں گا اگر مجھ کو بنایا بھی گیا
کوئی شے ایسی مری جاں میں سمائی ہوئی ہے

سرد مہری کے علاقے میں ہوں مصروف دعا
زندہ رہنے کے لئے آگ جلائی ہوئی ہے

قصہ گو اب تری چوپال سے میں جاتا ہوں
رات بھی بھیگ چکی نیند بھی آئی ہوئی ہے