میں نے بھی سینہ ہوا دار بنا رکھا ہے
آنکھ کو روزن دیوار بنا رکھا ہے
پیڑ نے روٹھے ہوئے موسم گل کے غم میں
شاخ کو دست عزا دار بنا رکھا ہے
سنگ خواہش کبھی دریا کے حوالے نہ کیے
پھینکنے کے لیے کہسار بنا رکھا ہے
میں نے کاغذ کی زرہ جسم پہ پہنی ہوئی ہے
اور قلم ہاتھ میں تلوار بنا رکھا ہے
سانس لینا بھی مرے واسطے ناجائز ہے
خود کو یوں میں نے گنہ گار بنا رکھا ہے
وہی منظر جو ادھر پھیلا نظر آیا تھا
وہی اب جھیل نے اس پار بنا رکھا ہے
غزل
میں نے بھی سینہ ہوا دار بنا رکھا ہے
قاسم یعقوب