میں نہیں کہتا ہر اک چیز پرانی لے جا
مجھ کو جینے نہیں دیتی جو نشانی لے جا
ایک بن باس تو جینا ہے تجھے بھی اے دوست
اپنے ہم راہ کوئی رام کہانی لے جا
جن سے امید ہے صحرا میں گھنی چھاؤں کی
ان درختوں کے لیے ڈھیر سا پانی لے جا
سچ کو کاغذ پہ اترنے میں ہو خطرہ شاید
میری سوچی ہوئی ہر بات زبانی لے جا
وہ جو بیٹھے ہیں حقیقت کا تصور لے کر
ایسے لوگوں کے لیے کوئی کہانی لے جا

غزل
میں نہیں کہتا ہر اک چیز پرانی لے جا
سریندر شجر