EN हिंदी
میں محفل باز گھبرا کر ہوا تنہائی والا | شیح شیری
main mahfil-baz ghabra kar hua tanhai wala

غزل

میں محفل باز گھبرا کر ہوا تنہائی والا

فرحت احساس

;

میں محفل باز گھبرا کر ہوا تنہائی والا
کہ سب سے کھل کے ملنا کام ہے رسوائی والا

فراہم کر بدن کی روشنی اپنی کہ مجھ کو
رفو ہونا ہے اور یہ کام ہے بینائی والا

مری مٹی بھی کرنا چاہتی ہے مشق پرواز
دکھانا پھر اسے منظر وہی انگڑائی والا