میں محفل باز گھبرا کر ہوا تنہائی والا
کہ سب سے کھل کے ملنا کام ہے رسوائی والا
فراہم کر بدن کی روشنی اپنی کہ مجھ کو
رفو ہونا ہے اور یہ کام ہے بینائی والا
مری مٹی بھی کرنا چاہتی ہے مشق پرواز
دکھانا پھر اسے منظر وہی انگڑائی والا
غزل
میں محفل باز گھبرا کر ہوا تنہائی والا
فرحت احساس