EN हिंदी
میں لوٹ آؤں کہیں تو یہ سوچتا ہی نہ ہو | شیح شیری
main lauT aaun kahin tu ye sochta hi na ho

غزل

میں لوٹ آؤں کہیں تو یہ سوچتا ہی نہ ہو

شاذ تمکنت

;

میں لوٹ آؤں کہیں تو یہ سوچتا ہی نہ ہو
کہ رات دیر گئے تیرا در کھلا ہی نہ ہو

نہیں کہ زیست سے کچھ واسطہ پڑا ہی نہ ہو
میں کیسے مانوں ترا دل کبھی دکھا ہی نہ ہو

تلاش کر اسے دیوار و در کے چہروں میں
عجب نہیں تری محفل سے وہ اٹھا ہی نہ ہو

اک اعتماد وفا ہے کہ جی رہا ہوں میں
کہ میرے حال کا شاید اسے پتہ ہی نہ ہو

یہ راستہ تو اسی در پہ جا کے رکتا تھا
کہ وہ خفا ہے تو یہ راستہ مڑا ہی نہ ہو

میں یوں ہی اس سے خفا ہوں مگر مجھے ڈر ہے
منانے والا حقیقت میں خود خفا ہی نہ ہو

مجھے تو تجھ پہ خود اپنا گماں گزرتا ہے
ترا تھکا ہوا لہجہ مری دعا ہی نہ ہو

گناہ اور حسیں، اہرمن کے بس میں نہیں
ستم ظریف کوئی بندۂ خدا ہی نہ ہو

میں سوچتا ہوں کہ آپ اپنی دشمنی کیا ہے
مرا وجود مری ذات سے جدا ہی نہ ہو

بڑے بڑوں کے نشیب و فراز دیکھے ہیں
کوئی ملے تو سہی جس کا سر جھکا ہی نہ ہو

نہ جانے کتنے ہیں سیارگان نادیدہ
تو انتہا جسے کہتا ہے ابتدا ہی نہ ہو

وہ لاکھ غم سہی ایسا نہیں یہ دنیا ہے
کہ شاذؔ اس سے بچھڑ کر کبھی ہنسا ہی نہ ہو