میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا
پتھروں کی چوٹ پھر کھانے لگا
میں چلا تھا پیڑ نے روکا مجھے
جب برستی دھوپ میں جانے لگا
دشت سارا سو رہا تھا اٹھ گیا
اڑ کے طائر جب کہیں جانے لگا
پیڑ کی شاخیں وہیں رونے لگیں
ابر کا سایہ جہاں چھانے لگا
پتھروں نے گیت گایا جن دنوں
ان دنوں سے آسماں رونے لگا
غزل
میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا
ساحل احمد