EN हिंदी
میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا | شیح شیری
main labaada oDh kar jaane laga

غزل

میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا

ساحل احمد

;

میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا
پتھروں کی چوٹ پھر کھانے لگا

میں چلا تھا پیڑ نے روکا مجھے
جب برستی دھوپ میں جانے لگا

دشت سارا سو رہا تھا اٹھ گیا
اڑ کے طائر جب کہیں جانے لگا

پیڑ کی شاخیں وہیں رونے لگیں
ابر کا سایہ جہاں چھانے لگا

پتھروں نے گیت گایا جن دنوں
ان دنوں سے آسماں رونے لگا