میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا
شہر اب مجھ پہ کبھی وار نہیں کر سکتا
میں نہیں چاہتا ہر دم تری یادوں کا ہجوم
اپنی تنہائی میں دربار نہیں کر سکتا
تیرا غم ہو کہ غم دہر اٹھانے میں ہے کیا
کام کیا ہے جو یہ بیمار نہیں کر سکتا
اک عمارت مرے اندر ہوئی مسمار تو اب
کیا مجھے وقت سر دار نہیں کر سکتا
اپنی قیمت مجھے معلوم ہے دربار سخن
تیری قیمت پہ یہ بازار نہیں کر سکتا

غزل
میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا
معید رشیدی