EN हिंदी
میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا | شیح شیری
main koi dasht main diwar nahin kar sakta

غزل

میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا

معید رشیدی

;

میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا
شہر اب مجھ پہ کبھی وار نہیں کر سکتا

میں نہیں چاہتا ہر دم تری یادوں کا ہجوم
اپنی تنہائی میں دربار نہیں کر سکتا

تیرا غم ہو کہ غم دہر اٹھانے میں ہے کیا
کام کیا ہے جو یہ بیمار نہیں کر سکتا

اک عمارت مرے اندر ہوئی مسمار تو اب
کیا مجھے وقت سر دار نہیں کر سکتا

اپنی قیمت مجھے معلوم ہے دربار سخن
تیری قیمت پہ یہ بازار نہیں کر سکتا