EN हिंदी
میں کناروں کو رلانے لگا ہوں | شیح شیری
main kinaron ko rulane laga hun

غزل

میں کناروں کو رلانے لگا ہوں

زاہد شمسی

;

میں کناروں کو رلانے لگا ہوں
پھول دریا میں بہانے لگا ہوں

کھیل کو ختم کرو جلدی سے
ورنہ میں پردہ گرانے لگا ہوں

دل سے جاؤں تو بتانا مجھ کو
تیری محفل سے تو جانے لگا ہوں

یوں لگی مجھ کو محبت تیری
جیسے میں بوجھ اٹھانے لگا ہوں

پہلے میں اپنا اڑاتا تھا مذاق
اور اب خاک اڑانے لگا ہوں

کتنی آسانی سے مارا گیا تھا
کتنی مشکل سے ٹھکانے لگا ہوں

شکر ہے عشق کے سودے میں بھی
اشک دو چار کمانے لگا ہوں

وقت ہوں اور بڑی مدت سے
میں ترے ساتھ زمانے لگا ہوں

ایسے خاموش ہوا ہوں زاہدؔ
جیسے میں بات بڑھانے لگا ہوں