میں کہ وقف غم دوراں نہ ہوا تھا سو ہوا
چاک اب تک جو گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
پار دل کے کوئی پیکاں نہ ہوا تھا سو ہوا
یوں کبھی درد کا درماں نہ ہوا تھا سو ہوا
کوئی وعدہ کوئی پیماں نہ ہوا تھا سو ہوا
اتنا ناداں دل ناداں نہ ہوا تھا سو ہوا
ڈوبتے رہتے تھے ہر روز ہزاروں سورج
پھر بھی اشکوں سے چراغاں نہ ہوا تھا سو ہوا
کیا کہوں لالۂ پرخوں کو کہ جس کے باعث
مشتہر جو غم انساں نہ ہوا تھا سو ہوا
اس سے پہلے کہ تری یاد کے بادل چھائیں
مجھ کو اندازۂ طوفاں نہ ہوا تھا سو ہوا
ہے اثر میری ہی آشفتہ سری کا شاید
وہ مجھے دیکھ کے حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا
ہائے وہ ایک نظر لطف و کرم سے جس کے
تجھ سے بھی جو غم دوراں نہ ہوا تھا سو ہوا
شکریہ ان کے ستم کا کہ یوں ہی اے اقبالؔ
آج تک مجھ پہ جو احساں نہ ہوا تھا سو ہوا
غزل
میں کہ وقف غم دوراں نہ ہوا تھا سو ہوا
اقبال عمر