میں کہ تنہا اعتبار ذات کھونے سے ہوا
جو ہوا وہ دل میں شک کا بیج بونے سے ہوا
اک ذرا سے داغ رسوائی کا اتنا پھیلنا
ایسا دامن کو کسی جلدی میں دھونے سے ہوا
میں نے دیکھا ہے چمن سے رخصت گل کا سماں
سب سے پہلے رنگ مدھم ایک کونے سے ہوا
میں ہی بنتا ہوں فساد آب و گل کا ہر سبب
کس قدر نقصان میرا میرے ہونے سے ہوا
ایک ہنگامہ ہوا جو رات کے ایوان میں
روشنی کا خار ظلمت میں چبھونے سے ہوا
کیا بتاؤں کس طرح جاتا رہا زاد سفر
یہ زیاں بس ایک پل رستے میں سونے سے ہوا
سر پہ ہی رہتا اگر تو سر کا بچنا تھا محال
بوجھ میرا کم اسے ہر آن دھونے سے ہوا
زندگی گھستی رہی شاہیںؔ بسر ہونے کے ساتھ
پیرہن کا رنگ پھیکا روز دھونے سے ہوا
غزل
میں کہ تنہا اعتبار ذات کھونے سے ہوا
جاوید شاہین