میں کہ افسردہ مکانوں میں رہوں
آج بھی گزرے زمانوں میں رہوں
رات ہے سر پر کوئی سورج نہیں
کس لیے پھر سائبانوں میں رہوں
کیا وسیلہ ہو مرے اظہار کا
لفظ ہوں گونگی زبانوں میں رہوں
کون دیکھے گا یہاں طاقت مری
تیر ہوں ٹوٹی کمانوں میں رہوں
بھیڑیے ہیں چار سو بپھرے ہوئے
نیچے اتروں یا مچانوں میں رہوں
میرے ہونے کا ہو کچھ تو فائدہ
ہوں ہوا تو بادبانوں میں رہوں
رابطہ رکھوں زمینوں سے مگر
آسمانوں کی اڑانوں میں رہوں
یہ بھی کیا فخریؔ کہ پرزوں کی طرح
رات دن میں کارخانوں میں رہوں
غزل
میں کہ افسردہ مکانوں میں رہوں
زاہد فخری