میں خوش ہوا کہ بود میں رکھا گیا مجھے
حالانکہ بس قیود میں رکھا گیا مجھے
خدشات کی صلیب پہ کھینچی گئی حیات
حالات کے جمود میں رکھا گیا مجھے
جس سمت بھی گیا میں اجل میرے ساتھ تھی
یعنی مری حدود میں رکھا گیا مجھے
برفاب خواب جب مری آنکھوں میں آ بسے
اک حشر کی نمود میں رکھا گیا مجھے
دنیا کو دیکھتا ہوں یوں حیرت سے روز و شب
جیسے ابھی وجود میں رکھا گیا مجھے
بے ساز گنگنایا گیا مجھ کو ہر گھڑی
بے تال ہی سرود میں رکھا گیا مجھے
تو کیا بقا فریب زدہ حرف ہے فقیہ
تو کیا فقط نبود میں رکھا گیا مجھے
غزل
میں خوش ہوا کہ بود میں رکھا گیا مجھے
فقیہہ حیدر