EN हिंदी
میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے | شیح شیری
main KHuda bhi to nahin kyun mujhe tanha likh de

غزل

میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے

جلیل حشمی

;

میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے
اب مرے نام کی سولی پہ مسیحا لکھ دے

ایسے سناٹے سے بہتر ہے شکستوں کی صدا
میری مٹی میں اک اڑتا ہوا پتا لکھ دے

دے وہ عنواں کہ ضرورت نہ کہانی کی پڑے
باغباں سبزے پہ خاکستر غنچہ لکھ دے

رات بھر تیرے اجالوں کی قسم کھاؤں میں
تو سر شام مری شمع کا بجھنا لکھ دے

ہو چکے خشک مری آنکھ کے چشمے کب کے
سامنے دشت ہے اک ابر کا ٹکڑا لکھ دے

پھول کا ذکر بھی کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے
پھر نہ تو میری زباں پر کہیں کانٹا لکھ دے

داغ اس ایک کلی کا نہ مٹے گا ہرگز
میری جھولی میں اگر باغ بھی سارا لکھ دے

سانس لیتے ہوئے راکھ اڑتی ہے اب چہرے پر
نہ بجھا آگ مگر ساتھ ہی چشمہ لکھ دے

بے وفائی کی شکایت اسے کیا لوگوں سے
جس کی راہوں میں تو بچھڑا ہوا پیارا لکھ دے

اب تو اس آس پہ جیتے ہیں کہ شاید حشمیؔ
لکھنے والے نے جو اب تک نہیں لکھا لکھ دے