میں خود ہوں نقد مگر سو ادھار سر پر ہے
عجب وبال غم روزگار سر پر ہے
گماں ہے سب کو کہ ہوں آسماں اٹھائے ہوئے
سفر سفر وہ قدم کا غبار سر پر ہے
ہوائے جاں کا تقاضا کہ رہیے گھر سے دور
کہ ہیں جو گھر میں بیاباں ہزار سر پر ہے
سبک نہ سمجھو مجھے پشت ٹوٹ جائے گی
میں ایک پل سہی صدیوں کا بار سر پر ہے
زمیں کے ذمے ہے جو قرض کیوں چکاؤں میں
زمانہ کس لیے آخر سوار سر پر ہے
ہزار گھاٹے کا سودا ہو یہ فقیریٔ حرف
یہی بہت ہے کلاہ وقار سر پر ہے
فضاؔ نہ تھا کبھی تازہ دماغ اتنا میں
ہے اس کا ہاتھ کہ شاخ بہار سر پر ہے
غزل
میں خود ہوں نقد مگر سو ادھار سر پر ہے
فضا ابن فیضی