میں خالی گھر میں بھی تنہا نہیں تھا
کہ جب تک آئنہ ٹوٹا نہیں تھا
سر آئینہ وہ چہرہ نہیں تھا
مگر یہ بات میں سمجھا نہیں تھا
جہاں سیراب ہوتی تھی مری روح
وہ صحرا تھا کوئی دریا نہیں تھا
مجھے اس موڑ پہ مارا گیا ہے
کہانی میں جہاں مرنا نہیں تھا
مری آنکھوں نے وہ آنسو بھی دیکھا
مری قسمت میں جو لکھا نہیں تھا
ہوئی تھی زندگی جب شہر میں گم
کسی کو کوئی رنج اس کا نہیں تھا

غزل
میں خالی گھر میں بھی تنہا نہیں تھا
اسحاق وردگ