میں خال و خد کا سراپا تصورات میں تھا
دمکتی ذات کا سورج اندھیری رات میں تھا
وہ وقت اب بھی نگاہوں میں جگمگاتا ہے
یہ کائنات تھی مجھ میں میں کائنات میں تھا
میں شہر شہر کی حیرانیوں سے گزرا ہوں
مرا وجود بھی شاید عجائبات میں تھا
انا کے دشت میں صدیوں کی دھول اوڑھے ہوئے
نہ جانے کب سے وہ الجھا تعصبات میں تھا
تمام شور شرابہ نفس نفس میں لیے
وہ ڈوبتا ہوا احساس شب برات میں تھا
یہ صبح و شام ملاقات ہے اجیرن سی
کبھی کبھار کا ملنا تبرکات میں تھا
حیاتؔ ڈھونڈ رہا ہوں وہ لکھنؤ کہ جہاں
شرافتوں کا اثاثہ تکلفات میں تھا
غزل
میں خال و خد کا سراپا تصورات میں تھا
حیات لکھنوی