میں خاک میں ملے ہوئے گلاب دیکھتا رہا
اور آنے والے موسموں کے خواب دیکھتا رہا
کسی نے مجھ سے کہہ دیا تھا زندگی پہ غور کر
میں شاخ پر کھلا ہوا گلاب دیکھتا رہا
کھڑا تھا میں سمندروں کو اوک میں لیے ہوئے
مگر یہ شخص عجیب تھا سراب دیکھتا رہا
وہ اس کا مجھ کو دیکھنا بھی اک طلسم تھا مگر
میں اور اک جہاں پس نقاب دیکھتا رہا
وہ گہری نیند سوئی تھی میں نیند سے لڑا ہوا
سو رات بھر سحاب و ماہتاب دیکھتا رہا
سیاہ رات میں رفیق دشمنوں سے جا ملے
میں حوصلوں کی ٹوٹتی طناب دیکھتا رہا
غزل
میں خاک میں ملے ہوئے گلاب دیکھتا رہا
افضال فردوس