میں خاک ہوں سو یہی تجربہ رہا ہے مجھے
وہ شکل نو کے لئے روندتا رہا ہے مجھے
اسے جو چاہیے میں ہوں اسی کے جیسا کوئی
وہ میرے جیسے کی ضد میں گنوا رہا ہے مجھے
میں وہ ہی خواب سحر جو فضول تھا دن بھر
طویل شب میں مگر دیکھا جا رہا ہے مجھے
ادھر یہ فردا خفا ہے مرے تغافل سے
ادھر خلوص سے ماضی بلا رہا ہے مجھے
یہی نہیں کہ میں نا مطمئن ہوں دنیا سے
مرا وجود بھی اک مسئلہ رہا ہے مجھے

غزل
میں خاک ہوں سو یہی تجربہ رہا ہے مجھے
راہل جھا