میں کب سے مرا اپنے اندر پڑا ہوں
میں مردہ ہوں مردے کے اوپر پڑا ہوں
میں دنیا بدلنے کو نکلا تھا گھر سے
سو تھک ہار کے گھر میں آ کر پڑا ہوں
خدا ہوں میں گنبد سے لٹکا ہوا ہوں
میں بھگوان مندر کے باہر پڑا ہوں
ترے پاؤں کی دھول ہی چاٹنی ہے
ترے در کا بن کے میں پتھر پڑا ہوں
قدم دھر مری سوکھی اس سر زمیں پہ
تری چاہ میں کب سے بنجر پڑا ہوں
سویرا ہوا مکھیاں آ گئی ہیں
میں جاگا ہوا چھت پہ کیوں کر پڑا ہوں
غزل
میں کب سے مرا اپنے اندر پڑا ہوں
علی عمران