میں کب رہین ریگ بیابان یاس تھا
صد خیمۂ بہار مرے آس پاس تھا
توڑا ہے بارہا مجھے دل کی شکست نے
چہرہ مگر ذرا بھی نہ میرا اداس تھا
صحرائے جاں کی دھوپ میں تھیں وحشتیں بہت
لیکن نہ میرا عزم کہیں بدحواس تھا
یہ اور بات ہے کہ برہنہ تھی زندگی
موجود پھر بھی میرے بدن پر لباس تھا
میں نے ہر ایک لمحے کو چاہا ہے ٹوٹ کر
تھا زندگی پرست محبت شناس تھا
موسم کچھ آئے ایسے بھی شہر خیال میں
مجھ کو نہ جن کا علم نہ کوئی قیاس تھا
فکر سخن ہی اشکؔ ہے ذوق عمل مرا
اس کے سوا نہ کار جہاں کوئی راس تھا
غزل
میں کب رہین ریگ بیابان یاس تھا
ابراہیم اشکؔ