میں کار آمد ہوں یا بے کار ہوں میں
مگر اے یار تیرا یار ہوں میں
جو دیکھا ہے کسی کو مت بتانا
علاقے بھر میں عزت دار ہوں میں
خود اپنی ذات کے سرمائے میں بھی
صفر فیصد کا حصے دار ہوں میں
اور اب کیوں بین کرتے آ گئے ہوں
کہا تھا نا بہت بیمار ہوں میں
مری تو ساری دنیا بس تمہی ہو
غلط کیا ہے جو دنیا دار ہوں میں
کہانی میں جو ہوتا ہی نہیں ہے
کہانی کا وہی کردار ہوں میں
یہ طے کرتا ہے دستک دینے والا
کہاں در ہوں کہاں دیوار ہوں میں
کوئی سمجھائے میرے دشمنوں کو
ذرا سی دوستی کی مار ہوں میں
مجھے پتھر سمجھ کر پیش مت آ
ذرا سا رحم کر جاں دار ہوں میں
بس اتنا سوچ کر کیجے کوئی حکم
بڑا منہ زور خدمت گار ہوں میں
کوئی شک ہے تو بے شک آزما لے
ترا ہونے کا دعوے دار ہوں میں
اگر ہر حال میں خوش رہنا فن ہے
تو پھر سب سے بڑا فن کار ہوں میں
زمانہ تو مجھے کہتا ہے فارسؔ
مگر فارسؔ کا پردہ دار ہوں میں
انہیں کھلنا سکھاتا ہوں میں فارسؔ
گلابوں کا سہولت کار ہوں میں
غزل
میں کار آمد ہوں یا بے کار ہوں میں
رحمان فارس