میں جو تجھ سے ملا نہیں ہوتا
یہ مرا مرتبہ نہیں ہوتا
جو مقدر میں تھا ملا تجھ کو
سب کو سب کچھ عطا نہیں ہوتا
چھین مت حق تو اپنے چھوٹوں کا
آدمی یوں بڑا نہیں ہوتا
لوگ یوں تو گلے لگاتے ہیں
پیار دل میں ذرا نہیں ہوتا
ساتھ دیتا جو تو سفر پھر یہ
اتنا مشکل بھرا نہیں ہوتا
حال پڑھ لیتا ماں کے چہرے سے
وہ جو لکھا پڑھا نہیں ہوتا
غفلتوں میں اثرؔ نہ ہوتا تو
تیر اس کا خطا نہیں ہوتا

غزل
میں جو تجھ سے ملا نہیں ہوتا
پرمود شرما اثر