میں جو روتا ہوں تو کہتے ہو کہ ایسا نہ کرو
تم اگر میری جگہ ہو تو بھلا کیا نہ کرو
اب تو اے دل ہوس ساغر و مینا نہ کرو
چھوڑ بھی دو یہ تقاضا یہ تقاضا نہ کرو
دل پہ اے دوست قیامت سی گزر جاتی ہے
تم نگاہ غلط انداز سے دیکھا نہ کرو
پھر بھی آنکھیں انہیں ہر بات بتا دیتی ہیں
دل تو کہتا ہے کسی بات کا چرچا نہ کرو
اب مرا درد مری جان ہوا جاتا ہے
اے مرے چارہ گرو اب مجھے اچھا نہ کرو
یہ سر بزم مری سمت اشارے کیسے
میں تماشا تو نہیں میرا تماشا نہ کرو
مل ہی جاتی ہے کبھی یاس میں تسکین مجھے
اے امیدو مجھے ایسے میں تو چھیڑا نہ کرو
اس نے شہزادؔ تری بات کو ٹھکرا ہی دیا
میں نہ کہتا تھا کہ اظہار تمنا نہ کرو
غزل
میں جو روتا ہوں تو کہتے ہو کہ ایسا نہ کرو
شہزاد احمد