میں جو کچھ سوچتا ہوں اب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
جو ہوگا زندگی کا ڈھب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
ابھی تو آنکھ اوجھل ہے مگر خورشید کے ہاتھوں
کھینچے گی جب ردائے شب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
مقدر میں تمہارے کیوں نہیں لکھا بجز میرے
صلیب و دار کا منصب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
یہ کیسا قافلہ ہے جس میں سارے لوگ تنہا ہیں
یہ کس برزخ میں ہیں ہم سب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
خدا اور آدمی دونوں اگر عین حقیقت ہیں
حقیقت میں ہے کیا مذہب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
غزل
میں جو کچھ سوچتا ہوں اب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
حمایت علی شاعرؔ