میں جن بلندیوں پہ تھا جن سے گرا بھی تھا
میرا خیال ہے کہ وہاں پر خدا بھی تھا
اترا زمین پر تو نگاہیں چمک اٹھیں
یہ حسن گرچہ خلد سے کم تھا جدا بھی تھا
اس نے زمین پر بھی نہ جینے دیا مجھے
یہ شیوۂ سزا کہ خدا کو روا بھی تھا
پیش نظر تھا حضرت آدم کے جو شجر
تھی لذت ثمر تو خیال بقا بھی تھا
شاید کہ سوچتا بھی ہو میرے لیے وہ حسن
مجھ کو نکال کر جو مجھے دیکھتا بھی تھا
کیوں اس نے عرش و فرش پہ اپنا لیا مجھے
کیا تجھ سا دو جہاں میں کوئی دوسرا بھی تھا
عارفؔ وہ کر رہا تھا تبسم بھی زیر لب
جب عالم عتاب میں مجھ سے خفا بھی تھا

غزل
میں جن بلندیوں پہ تھا جن سے گرا بھی تھا
منظور عارف