میں جنگ جیت کے جبر و انا کی ہار گیا
عدو پہ رحم کا احساس مجھ کو مار گیا
امیر شہر کے عفو و کرم کو کیا کہیے
کھلے وہ لوگ کہ خوف صلیب و دار گیا
غرور کثرت لشکر نہ میرے کام آیا
میں سو رہا تھا کہ شب خوں غنیم مار گیا
مرا نصیب کہ بکھری تھی ڈال ڈال مری
کوئی خزاں کا بگولا مجھے سنوار گیا
صدی کی رات گزاری امید کے بل پر
بجھا چراغ سحر کرب انتظار گیا
کسی نے چاپ بھی جاتے ہوئے نہ اس کی سنی
جو شخص برسوں ترے شہر میں گزار گیا
شب فراق کے دریا میں کود کر راسخؔ
تمام قرض وفا کے کوئی اتار گیا
غزل
میں جنگ جیت کے جبر و انا کی ہار گیا
راسخ عرفانی