میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ
پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ
غزل
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
علی سردار جعفری