میں انسان نوع ہوں میں عیسیٰ نفس ہوں
زمیں سے تمہاری میں پھر کل اٹھوں گا
میں آدم ہوں بے جاں سا پتھر نہیں ہوں
بھنور سا ہوں صحرا میں پل پل اٹھوں گا
ہوں دریا کا پانی کہ جب بھی مروں گا
سمندر کی بن کے میں ہلچل اٹھوں گا
کبھی کی جو سورج نے وعدہ خلافی
یہ ہے میرا وعدہ کے میں جل اٹھوں گا
کوئی عشق جیسے پرانا ہو عاطفؔ
میں مر کے بھی دل میں مسلسل اٹھوں گا
غزل
میں انسان نوع ہوں میں عیسیٰ نفس ہوں (ردیف .. ا)
عاطف خان