EN हिंदी
میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا | شیح شیری
main ek musafir-e-tanha mera safar tanha

غزل

میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا

گہر خیرآبادی

;

میں اک مسافر تنہا مرا سفر تنہا
دیار غیر میں پھرتا ہوں در بدر تنہا

مرے خلاف تمام آندھیاں زمانے کی
میں اک چراغ صداقت کی راہ پر تنہا

ہے ایک بھیڑ مگر کوئی بھی رفیق نہیں
میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ہوں کس قدر تنہا

نہ مٹے مٹ سکیں تنہائیاں مقدر کی
کہ رہ کے باغ میں بھی ہے شجر شجر تنہا

ترے بھی سینے میں اپنوں کا درد جاگے گا
دیار غیر میں کوئی تو شام کر تنہا

کوئی تو بڑھ کے یہ کہتا کہ رہروان وطن
ہے کاروان محبت کا راہبر تنہا

چمن میں گونجے صدا بھی تو کس طرح گونجے
پرندہ شاخ پہ بولا تو ہے مگر تنہا

بڑے مہیب نظر آئے حال و مستقبل
جب اپنے ماضی کو سوچا ہے بیٹھ کر تنہا

نگاہ پختہ ہے جس کی وہی خریدے گا
ہے سنگ ریزوں کے بازار میں گہرؔ تنہا