میں اک جھوٹی کہانی لکھ رہا ہوں
لہٰذا زندگانی لکھ رہا ہوں
تو جھیلوں کی رکاوٹ سوچتی رہ
میں دریا کی روانی لکھ رہا ہوں
سرابوں سے کہیں بجھتی ہیں پیاسیں
گماں کے منہ پہ پانی لکھ رہا ہوں
بدن کا ترجمہ تو کر دیا ہے
اب آنکھوں کے معانی لکھ رہا ہوں
مجھے لکھنا تھا اپنے بارے میں کچھ
سو اپنی رائیگانی لکھ رہا ہوں
غزل
میں اک جھوٹی کہانی لکھ رہا ہوں
دھیریندر سنگھ فیاض