میں ہوں حیراں یہ سلسلہ کیا ہے
آئنہ مجھ میں ڈھونڈھتا کیا ہے
خود سے بیتاب ہوں نکلنے کو
کوئی بتلائے راستہ کیا ہے
میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا
ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے
میں ہوں یکجا تو پھر مرے اندر
ایک مدت سے ٹوٹتا کیا ہے
خود ہی تنہائیوں میں چلاؤں
خود ہی سوچوں یہ شور سا کیا ہے
جانے کب کیا جنوں میں کر جاؤں
میں تو دیوانہ ہوں مرا کیا ہے
غزل
میں ہوں حیراں یہ سلسلہ کیا ہے
آس محمد محسن