میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام
خاکداں تا آسماں چھایا ہے مستقبل تمام
پی چکی کتنی ہی موجوں کا لہو ساحل کی ریت
لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں سر ساحل تمام
گھر کو دن بھر کی متاع رہ نوردی سونپ دی
سعئ پیہم کا غبار شہر تھا حاصل تمام
دیکھنا سب نے اٹھا رکھی ہے کاندھوں پر صلیب
بھیس میں مقتول کے روپوش ہیں قاتل تمام
ماہتاب ابھرا بھی تو جانے کہاں ڈوبا کہ رات
کر دیا موجوں نے چھلنی سینۂ ساحل تمام
غزل
میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام
شہاب جعفری