میں ہی دیوانہ سہی لوگ تو فرزانے ہیں
کیوں حقائق میں ملا دیتے یہ افسانے ہیں
ایک لمحے کو نگہ اور طرف بھٹکی تھی
ورنہ ہم صرف تری دید کے دیوانے ہیں
جس نے دیکھا نہ اسے ہوش رہا تن من کا
تیری آنکھیں ہیں کہ جادو ہیں کہ مے خانے ہیں
دل میں وہ کچھ ہے کہ لفظوں میں ادا ہو نہ سکے
وہ سمندر تو یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے ہیں
ایک وہ لوگ کہ صحراؤں کو رونق بخشیں
ایک ہم ہیں کہ بھرے شہر بھی ویرانے ہیں
وہ بھی دن تھے جو کیا کرتا تھا خود سے باتیں
آج آسیؔ کے بڑے لوگوں سے یارانے ہیں

غزل
میں ہی دیوانہ سہی لوگ تو فرزانے ہیں
محمد یعقوب آسی