میں ہوا کے دوش پہ رکھا ہوا
پتہ ہوں پر شاخ سے ٹوٹا ہوا
رات کی گلک میں کرتا جمع ہوں
پورے دن کا جو بھی ہے جوڑا ہوا
تتلیاں اکثر ہیں مجھ سے پوچھتی
پاس میرے پھول تھا جو کیا ہوا
وو کوئی سایہ نہیں تھا میں ہی تھا
دھوپ تیرا خواہ مخواہ حرجا ہوا
پیاس اپنی جڑ سے میں نے ختم کی
دریا ہونٹوں پہ رکھا جلتا ہوا
ذہن تو محفوظ ہوتا پر یے کیا
یے نگر بھی ہے ترا لوٹا ہوا
غزل
میں ہوا کے دوش پہ رکھا ہوا
نشانت شری واستو نایاب