میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا
جس کے لیے اک عمر کنویں جھانکتے گزری
وہ ماہ کراچی مہ کنعاں کی طرح تھا
تو کون تھا کیا تھا کہ برس گزرے پر اب بھی
محسوس یہ ہوتا ہے رگ جاں کی طرح تھا
جس کے لئے کانٹا سا چبھا کرتا تھا دل میں
پہلو میں وہ آیا تو گلستاں کی طرح تھا
اک عمر الجھتا رہا دنیا کی ہوا سے
کیا میں بھی تیرے کاکل پیچاں کی طرح تھا
کچھ عمر گریزاں سے مرے ہاتھ نہ آیا
ہر لمحہ ترے گوشۂ داماں کی طرح تھا
ڈوبے سے کہاں پیاس بجھی اہل طلب کی
میں وادئ گل میں بھی بیاباں کی طرح تھا
جینا تو غضب ہے مگر اے عمر عجب ہے
تجھ کو تو خبر ہے وہ مری جاں کی طرح تھا
اے رات کے اندھیارے میں جاگے ہوئے لمحو
ڈھونڈو اسے وہ خواب پریشاں کی طرح تھا
مٹی کو یہاں پاؤں پکڑنا نہیں آتا
میں شہر میں بھی گرد کے طوفاں کی طرح تھا
لو حرف غزل بن کے نمایاں ہوا باقرؔ
کل رمز صفت معنیٔ پنہاں کی طرح تھا

غزل
میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
سجاد باقر رضوی