میں حبیب ہوں کسی اور کا مری جان جاں کوئی اور ہے
سر داستاں کوئی اور ہے پس داستاں کوئی اور ہے
یہ عذاب دربدری میاں ہے ازل سے میرا رفیق جاں
میں مکین ہوں کہیں اور کا مرا خاک داں کوئی اور ہے
یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے کسے کتنی قوت پر ملی
ترا آسماں کوئی اور ہے مرا آسماں کوئی اور ہے
یہ جو زندگی کی ہیں گتھیاں یہ سلجھ کے بھی نہ سلجھ سکیں
ہیں اگرچہ وجہ سکون ہم یہاں شادماں کوئی اور ہے
مجھے شاعری کا ہنر ملا مجھے گنج لعل و گہر ملا
مرے حرف میں مرے لفظ میں جو ہے بے کراں کوئی اور ہے
غزل
میں حبیب ہوں کسی اور کا مری جان جاں کوئی اور ہے
طارق متین