میں ہاتھ بڑھاؤں کیا دامان گلستاں تک
ہے رنگ گل لالہ نیرنگ بہاراں تک
پھولوں سے رہا خالی دامان وفا اپنا
کانٹے ہی ملے ہم کو گلشن سے بیاباں تک
اٹھتے ہیں بگولے تو صحرا کی طرف جائیں
دیوانوں کی دنیا ہے دامن سے گریباں تک
کٹ جائیں گی اک دن سب آلام کی زنجیریں
یہ قید مسلسل ہے مجبوریٔ انساں تک
بے سوز کوئی نغمہ مقبول نہیں ہوتا
مضراب غم دل کو لے جاؤ رگ جاں تک
کاشانے غریبوں کے سر اپنا اٹھائیں گے
مٹی کے چراغوں کی لو جائے گی ایواں تک
طرفہ کوئی کیا جانے غم اہل محبت کا
جاتی ہے نظر کس کی زخم دل انساں تک

غزل
میں ہاتھ بڑھاؤں کیا دامان گلستاں تک
طرفہ قریشی