EN हिंदी
میں ہاتھ بڑھاؤں کیا دامان گلستاں تک | شیح شیری
main hath baDhaun kya daman-e-gulistan tak

غزل

میں ہاتھ بڑھاؤں کیا دامان گلستاں تک

طرفہ قریشی

;

میں ہاتھ بڑھاؤں کیا دامان گلستاں تک
ہے رنگ گل لالہ نیرنگ بہاراں تک

پھولوں سے رہا خالی دامان وفا اپنا
کانٹے ہی ملے ہم کو گلشن سے بیاباں تک

اٹھتے ہیں بگولے تو صحرا کی طرف جائیں
دیوانوں کی دنیا ہے دامن سے گریباں تک

کٹ جائیں گی اک دن سب آلام کی زنجیریں
یہ قید مسلسل ہے مجبوریٔ انساں تک

بے سوز کوئی نغمہ مقبول نہیں ہوتا
مضراب غم دل کو لے جاؤ رگ جاں تک

کاشانے غریبوں کے سر اپنا اٹھائیں گے
مٹی کے چراغوں کی لو جائے گی ایواں تک

طرفہ کوئی کیا جانے غم اہل محبت کا
جاتی ہے نظر کس کی زخم دل انساں تک