میں غزل کا حرف امکاں مثنوی کا خواب ہوں
اپنی سب روداد لکھنے کے لئے بیتاب ہوں
میں ببولوں کی طرح پھولا پھلا ہوں دشت میں
ابر آئے یا نہ آئے میں سدا شاداب ہوں
موج صہبا ہوں اگر ہے ظرف یاراں آئنہ
کچھ غبار آئے نظر تو سر بسر گرداب ہوں
میں ہوں اک ویراں ستارہ گر ہے کوئی نا شناس
کوئی ہے روشن نظر تو چشمۂ مہتاب ہوں
کیا سمجھ کر مجھ سے الجھے ہیں حسنؔ لیل و نہار
آپ اپنا روز و شب ہوں آپ عالم تاب ہوں
غزل
میں غزل کا حرف امکاں مثنوی کا خواب ہوں
حسن نعیم