EN हिंदी
میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا | شیح شیری
main ek bund samundar hua to kaise hua

غزل

میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا

فراغ روہوی

;

میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا
یہ معجزہ مرے اندر ہوا تو کیسے ہوا

یہ بھید سب پہ اجاگر ہوا تو کیسے ہوا
کہ میرے دل میں ترا گھر ہوا تو کیسے ہوا

نہ چاند نے کیا روشن مجھے نہ سورج نے
تو میں جہاں میں منور ہوا تو کیسے ہوا

نہ آس پاس چمن ہے نہ گل بدن کوئی
ہمارا کمرہ معطر ہوا تو کیسے ہوا

ذرا سی بات پہ اک غم گسار کے آگے
میں اپنے آپے سے باہر ہوا تو کیسے ہوا

سلگتے صحرا میں طوفاں کا سامنا تھا مجھے
یہ معرکہ جو ہوا سر ہوا تو کیسے ہوا

وہ جنگ ہار کے مجھ سے یہ پوچھتا ہے کہ میں
بغیر تیغ مظفر ہوا تو کیسے ہوا

سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے
وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا