میں دنیا کی حقیقت جانتا ہوں
کسے ملتی ہے شہرت جانتا ہوں
مری پہچان ہے شعر و سخن سے
میں اپنی قدر و قیمت جانتا ہوں
تیری یادیں ہیں شب بیداریاں ہیں
ہے آنکھوں کو شکایت جانتا ہوں
میں رسوا ہو گیا ہوں شہر بھر میں
مگر کس کی بدولت جانتا ہوں
غزل پھولوں سی دل صحراؤں جیسا
میں اہل فن کی حالت جانتا ہوں
تڑپ کر اور تڑپائے گی مجھ کو
شب غم تیری فطرت جانتا ہوں
سحر ہونے کو ہے ایسا لگے ہے
میں سورج کی سیاست جانتا ہوں
دیا ہے نقشؔ جو غم زندگی نے
اسے میں اپنی دولت جانتا ہوں
غزل
میں دنیا کی حقیقت جانتا ہوں
نقش لائل پوری