میں دن کو رات کے دریا میں جب اتار آیا
مجھے زمین کی گردش پہ اعتبار آیا
میں کون کون سے حصے میں روشنی لکھوں
کہ اب تو سارا علاقہ پس غبار آیا
جو کر رہا تھا برابر نصیحتیں مجھ کو
وہ ایک داؤ میں ساری حیات ہار آیا
دیار عشق میں خیرات جب ملی مجھ کو
مرے نصیب کی جھولی میں انتظار آیا
شب فراق کے لمحے تھے اتنے طولانی
میں ایک رات میں صدیاں کئی گزار آیا
نکل سکا نہ دکھوں کے حصار سے باہر
تمام زیست اسی خول میں گزار آیا
ہوا کے پاؤں تو شل ہو گئے تھے رستے میں
یہ کون پتوں میں سرگوشیاں ابھار آیا
غزل
میں دن کو رات کے دریا میں جب اتار آیا
سورج نرائن