EN हिंदी
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا | شیح شیری
main DhunDta hun jise wo jahan nahin milta

غزل

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

کیفی اعظمی

;

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا