میں دریا ہوں مگر دونوں طرف ساحل ہے تنہائی
تلاطم خیز موجوں میں مری شامل ہے تنہائی
محبت ہو تو تنہائی میں بھی اک کیف ہوتا ہے
تمناؤں کی نغمہ آفریں محفل ہے تنہائی
بہت دن وقت کی ہنگامہ آرائی میں گزرے ہیں
انہیں گزرے ہوئے ایام کا حاصل ہے تنہائی
ہجوم زیست سے دوری نے یہ ماحول بخشا ہے
اکیلی میں مرا کمرا ہے اور قاتل ہے تنہائی
مرے ہر کام کی مجھ کو وہی تحریک دیتی ہے
اگرچہ دیکھنے میں کس قدر مشکل ہے تنہائی
اسی نے تو تخیل کو مرے پرواز بخشی ہے
خدا کا شکر ہے جو اب کسی قابل ہے تنہائی
محبت کی شعاعوں سے توانائی جو ملتی ہے
اسی رنگینیٔ مفہوم میں داخل ہے تنہائی
خدا حسرت زدہ دل کی تمناؤں سے واقف ہے
دعائیں روز و شب کرتی ہوئی سائل ہے تنہائی
کسی کی یاد ہے دل میں ابھی تک انجمن آرا
سبیلہؔ کون سمجھے گا کہ میرا دل ہے تنہائی

غزل
میں دریا ہوں مگر دونوں طرف ساحل ہے تنہائی
سبیلہ انعام صدیقی