میں چوب خشک سہی وقت کا ہوں صحرا میں
سحر پکارتی مجھ کو تو ساتھ چلتا میں
مرے وجود میں زندہ صدی کا سناٹا
تہ زمیں ہوں کوئی بولتا سا دریا میں
ہر ایک زاویہ میرے لہو کے نام سے ہے
بتا رہا ہوں نئی وسعتوں کو رستا میں
بہت سے لوگ تو جیتے ہی جی کے مرتے ہیں
بس ایک شخص کہ مرتا ہوں روز تنہا میں
تو آئنہ ہے تری ذات اجنبی تو نہیں
قریب آ تجھے اپنا دکھاؤں چہرہ میں
یہ اس تکلف بے جا کی کیا ضرورت ہے
کہ ایک مشعل جاں تھا خوشی سے جلتا میں
نہ جانے کون تھا دشت ازل ابد میں نثارؔ
جو اپنے آپ سے ملتا تو کیوں بچھڑتا میں

غزل
میں چوب خشک سہی وقت کا ہوں صحرا میں
رشید نثار